کینسر ایک مزاجی بیماری ہے

 https://www.facebook.com/share/p/1DSFVEsSgP/

 

کینسر ایک مزاجی بیماری ہے — ہومیوپیتھک فلسفے کی روشنی میں
تحریر: ڈاکٹر سید محمد سراج
ہومیوپیتھک فلسفہ بیماریوں کو صرف جسمانی علامات تک محدود نہیں رکھتا، بلکہ انسان کی مجموعی کیفیت، اس کی مزاجی ساخت، نفسیاتی اور روحانی حالت کو بھی مدنظر رکھتا ہے۔ ہانیمن کے نزدیک بیماری صرف جسم میں پیدا ہونے والی کوئی خرابی نہیں، بلکہ ایک باطنی حیاتیاتی توانائی (vital force) کی بے ترتیبی کا نتیجہ ہے۔ اسی تناظر میں اگر ہم کینسر جیسے مہلک مرض کا جائزہ لیں، تو یہ محض ایک جسمانی عارضہ نہیں، بلکہ ایک گہرے مزاجی خلل کا اظہار ہے۔
مزاجی بیماری کیا ہے؟
ہومیوپیتھی میں "مزاجی بیماری" (Miasmatic disease) وہ ہے جو نسل در نسل منتقل ہو سکتی ہے، یا جو انسان کی باطنی توانائی میں خرابی کی صورت میں پیدا ہوتی ہے۔ ہانیمن نے تین بنیادی مزاجی بیماریوں کا ذکر کیا ہے: سورا، سفلس، اور سائکو سس۔ ان تینوں میں سے کسی ایک یا ان کے امتزاج کے ذریعے مختلف بیماریوں کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔
کینسر اور مزاجی بنیاد
کینسر کی جڑیں ہومیوپیتھک فلسفے کے مطابق گہرے مزاجی نقائص میں پیوستہ ہیں، خاص طور پر سائکو سس اور سفلس مزاج کا امتزاج اکثر کینسر کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے۔ سائکو سس میں جسمانی ساخت میں اضافہ، گٹھلیاں، رسولیاں، اور غیر معمولی نمو دیکھی جاتی ہے، جب کہ سفلس مزاج جسم کو اندر سے تباہ کرتا ہے، سوزش، سڑن اور تباہی اس کی علامات میں شامل ہیں۔
کینسر صرف جسم کی بیماری نہیں
کینسر کا آغاز جسم میں کسی خلیے کی بے قابو تقسیم سے ہوتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ وہ خلیہ کیوں بے قابو ہوتا ہے؟ ہومیوپیتھک نظریے کے مطابق یہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان کی vital force میں گہرے درجے کی خرابی واقع ہو چکی ہو۔ یہ خرابی اکثر طویل عرصے کے جذباتی صدمات، دبے ہوئے جذبات، وراثتی مزاجی بیماریوں، یا بار بار دافع مرض ادویات کے استعمال سے پیدا ہوتی ہے۔
ہومیوپیتھک علاج: مزاج کی درستی
ہومیوپیتھک علاج کا مقصد صرف کینسر کی رسولی یا علامات کو ختم کرنا نہیں، بلکہ اس مزاجی خلل کو درست کرنا ہے جو اس مہلک مرض کا اصل سبب ہے۔ ایک ہومیوپیتھک معالج مریض کی مکمل ہسٹری لیتا ہے — اس کے جذبات، خوف، خواب، وراثت، اور زندگی کے نشیب و فراز — تاکہ اس مزاج تک رسائی حاصل کی جا سکے جو کینسر کے پیچھے پوشیدہ ہے۔
کینسر کو اگر صرف جسمانی سطح پر سمجھا جائے تو ہم اس کا صرف ایک پہلو دیکھ پاتے ہیں۔ ہومیوپیتھک فلسفہ ہمیں اس کی گہرائی میں لے جاتا ہے، جہاں یہ مرض ایک مزاجی خرابی کی علامت بن کر سامنے آتا ہے۔ اگر ہم انسان کو ایک مکمل اکائی کے طور پر دیکھیں — جسم، ذہن اور روح — تو ہم نہ صرف کینسر بلکہ تمام بیماریوں کا زیادہ مؤثر اور پائیدار علاج کر سکتے ہیں۔

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہومیوپیتھی میں میازم (Miasm)

میازم‘ کی نئی تعریف